دل جلے دلبر کے فغاں اور بھی ہے
زخم کہن، قلب تپاں اور بھی ہے
راہ سے بھٹکانے کی شاید کڑی ہو
"نقش پا کے دیکھے نشاں اور بھی ہے"
چاند ستاروں کی طرف اب ہیں قدم
پردہ کے اس پار جہاں اور بھی ہے
حسن فریبی کا فقط کرب نہیں
رنج و الم دل میں نہاں اور بھی ہے
کرتے ہیں ناصؔر جو یہاں عشق و وفا
چین سے تو جائے، زیاں اور بھی ہے

0
45