کتنے جلووں میں نمایاں اے مری جان ہو تم
کبھی شعلہ کبھی شبنم کبھی طوفان ہو تم
شوخیِ گل ہے اداؤں پہ تمہاری قرباں
نازکی اور نزاکت کا وہ عنوان ہو تم
رشک کرتی ہیں غزل جس پہ زمانے کی سبھی
میر کے لہجے میں غالب کا وہ دیوان ہو تم
کیسے رکھوں دلِ نادان پہ قابو اپنے
موسمِ گل میں کھلے پھول کا گلدان ہو تم
تجھ سے وابستہ ہیں مالائیں مرے سانسوں کی
مرا ارمان مری جان مری شان ہو تم
کیوں نہ ہر جائی کہوں تجھکو میں اے جانِ جہاں
جان کر بھی مرے جذبات سے انجان ہو تم

0
14