سترہ سالہ محبت |
بڑی ہے مختصر میری کہانی |
کہ اس دل پر کوئی حاکم ہے رانی |
جوانی کا الگ سا روگ ہے وہ |
کہ سترہ سالہ کچی عمر کی پکی محبت کا |
کوئی گہرا کوئی تکلیف دہ سا زخم ہے وہ |
گئی یوں چھوڑ کر اک دن کہ اب تو |
مہینوں سے نہ سویا ہوں |
اسی فرقت میں لمحہ لمحہ رویا ہوں |
ہر اک دشت و نگر میں |
اسے ہی ڈھونڈتا ہوں |
نہ نیند آتی ہے مجھ کو |
نہ کٹتی ہے شبِ ہجراں |
مرا وہ حال اس نے کیا |
کہ جینا بھی محال اس نے ہی کیا |
ان آنکھوں سے |
بس اب بہتے ہیں جھرنے آنسوؤں کے |
تھم اے نادان آنسو تھم! |
اب آئے گی نہیں وہ |
اب آئے گی نہیں وہ |
کبھی زخموں بھری یہ داستاں پڑھ |
مرے دل پر لکھا کانٹوں سے اپنا نام پڑھ |
کبھی ماں باپ کا شہزادہ تھا میں |
مگر اب |
کسی کاتب کی اشکوں سے بھری تحریر ہوں میں |
کسی غمگیں مصور کی ادھوری سی کوئی تصویر ہوں میں |
ان آنکھوں سے |
فقط آنسو نہیں اب خون بہتا ہے |
اب اس گھر میں کوئی انساں نہیں بلکہ |
کوئی لاشہ ہی رہتا ہے |
بدلتے کروٹیں یہ شب گزاری |
نجانے نیند یارو! کس نگر میں کھو گئی |
ان آنکھوں میں ہے تیرے ہجر کی لالی |
سیہ حلقے جدائی کی نشانی |
اب آنکھوں سے |
مسلسل بہہ رہے ہیں آنسوؤں کے چشمے |
تھم اے نادان آنسو تھم! |
اب آئے گی نہیں وہ |
اب آئے گی نہیں وہ |
ابھی دورِ شباب و مستی تھا مجھ پر |
ابھی ہی مجھ کو مجنوں کر دیا |
ابھی تو زیست کی رنگیں بہاریں دیکھنی تھیں |
ابھی ہی موت کے در پر مجھے لے آئی ہو |
مجھے دن رات کیوں رولا رہی ہو |
مسلسل بہہ رہے ہیں آنسوؤں کے چشمے |
تھم اے نادان آنسو تھم! |
اب آئے گی نہیں وہ |
اب آئے گی نہیں وہ |
مدثر حسین عاجز |
معلومات