| یاد کر واتی یہ قُر بانی ہے ابراہیم کی |
| اور قُربانی تو لاثانی ہے ابراہیم کی |
| جب پدر کرنے کو اپنے ہاتھ سے ذبحِ عظیم |
| ہو گیا تیّار قربانی ہے ابراہیم کی |
| باندھ دی آنکھوں پہ پٹّی تا نہ گھبرائے کہیں |
| اور پسر نے بات بھی مانی ہے ابراہیم کی |
| تھا پدر کے سامنے جیسے پسر لیٹا ہوا |
| غیب سے ہوتی پھر آسانی ہے ابراہیم کی |
| کہہ کے پہلے ہی تُو میرا حکم پورا کر چُکا |
| ربّ نے نیّت خوب پہچانی ہے ابراہیم کی |
| چھوڑ کر صحرا میں ماں بیٹے کو تُو تھا آگیا |
| اک نشانی بہہ رہا پانی ہے ابراہیم کی |
| اذنِ ربّی سے وہاں مینڈھے کو جب بھیجا گیا |
| گر گئی سجدے میں پیشانی ہے ابراہیم کی |
| عیدِ قرباں یاد میں اس کی مناتے ہیں جو ہم |
| کی وفا رب سے جو لا فانی ہے ابراہیم کی |
| پیار کا رب سے تقاضا ہے کہ ہم بھیجیں درود |
| ہے محمّد دل میں تابانی ہے ابراہیم کی |
معلومات