| زندگی اشتہار میں رکھ دو |
| سرخیوں کی قطار میں رکھ دو |
| ہم زمیں زاد بھی ہیں سیارے |
| آسمانو ! شمار میں رکھ دو |
| دھوپ تھوڑی بچائے رکھ لینا |
| تھوڑی چھاؤں حصار میں رکھ دو |
| دل ابھی جو ہوا نہیں ہلکا |
| اشک واپس غبار میں رکھ دو |
| دشت دامن بچھائے بیٹھا ہے |
| تشنگی کو سوار میں رکھ دو |
| آخری بار دل کو ہارا ہے |
| آخری جیت ہار میں رکھ دو |
| آؤ پیدل چلیں علی شیدؔا |
| جاؤ سامان کار میں رکھ دو |
معلومات