یہی گر روش ہے تو پچھتائیے گا
کوئی ہم سا عاشق نہیں پائیے گا
ہیں ہر لحظہ ہم تو سراپا سماعت
ہے کیا حکم؟ سرکار فرمائیے گا!
بھلا کیسے کہہ سکتے رازِ جگر ہم
اگر آپ اس درجہ شرمائیے گا
نہ بدلیں اگر اپنی طرز و روش کو
تو پھر آپ منہ کی یوں ہی کھائیے گا
وفا کیجیے آپ وعدۂ فردا
بھلا آپ کب تک یوں تڑپائیے گا
یہ مانا کہ وہ شوخ آئے نہ تم تک
تو گھٹ گھٹ کے ثانی یوں مر جائیے گا
مری مشتِ خاکی اڑی صحرا صحرا
ہمیں پائیے گا جہاں جائیے گا
ان گستاخیوں کا بھی انجام کیا ہے
اشاروں اشاروں میں کہہ جائیے گا
بھری بزم میں اپنی قاتل ادا سے
کہا کیا یہ ہم کو بھی سمجھائیے گا
تمہارے ہی گیسو میں الجھیں گے پاؤں
اگر آپ اس درجہ اترائیے گا
اگر قتل ہونا ہو کوچے میں اس کے
خراماں خراماں چلے آئیے گا
ان زلفوں کو شانہ بھلا کون دے گا
جو ہر روز ثانی کو مروائیے گا
اگر یاں سے ہم روٹھ کر چل دیے پھر
تو بس ہاتھ ملتے ہی رہ جائیے گا
یوں اپنی اداؤں کی نازک ٹھسک سے
بھلا کب تلک دل کو دھڑکائیے گا
ہے احسان گر زلفِ مشکیں کی برسے
مرے کوچۂ دل کو مہکائیے گا
چپکتے چلے جا رہے ہیں پپوٹے
لعابِ دہن پھر سے ٹپکائیے گا
زمانے پہ احسان ہوگا تمہارا
اگر وہ یہ کافر کو لے آئیے گا
تو پھر آپ بھی ہو گئے اس میں شامل
اگر وارِ ظالم کو سہہ جائیے گا
نکل جائیں قبروں سے سب مرنے والے
اگر بام پر آپ آ جائیے گا

0
22