| یا علی، مجھ کو سخنور کر دے |
| شہرِ اماں کا گداگر کر دے |
| میں لکھوں نعت، قصیدے تیرے |
| لفظ کو نُور کا مظہر کر دے |
| بس تعلق ہے تری نسبت سے |
| میرے دل کو بھی منوّر کر دے |
| ورد ہے نادِ علی ہی زباں پر |
| تیرا عاشق ہوں میں قمبر کر دے |
| مجھ کو بھی ہو عطا نصرت مولا |
| حوصلہ مثلِ ء اشتر کر دے |
| حق و باطل کی ہو پہچان مجھے |
| خاکِ پا مثلِ ابوزر کر دے |
| میری ہر سانس میں ہو ذکر ترا |
| دل کو عشقِ علی کا محور کر دے |
| مولا، یہ شان ہے تیری کہ تو |
| جس کو چاہے توں قلندر کر دے |
معلومات