| ہر شجر ہر پھول پتا کاہشِ جاں ہو گیا |
| وہ گیا ایسا, چمن سارا بیاباں ہو گیا |
| اب محبت کا گماں اِس طَور سے کیسے نہ ہو |
| دیکھ کے مجھ کو پریشاں وہ پریشاں ہو گیا |
| یہ ہماری بے خودی تھی یا کہ تھا سوزِ دروں |
| آنکھ سے آنسو جو چھلکا وہ ہی طوفاں ہو گیا |
| کھائے گا اب در بہ در کی ٹھوکریں وہ عمر بھر |
| اب مِرے دل کا مکیں اور دل کا مہماں ہو گیا |
| میں فرشتہ ہوتا تو معصومیت جچتی بھی تھی |
| میں بشر تھا سو میں آلودَۂ عِصْیاں ہو گیا |
| آئے ہیں وہ مرگِ بستر پر عیادت کو تری |
| خوش ہو شاہدؔ کم سے کم جینے کا ساماں ہو گیا |
معلومات