حد ہوئی رحم کی برسات نئی کی جائے |
پیش بندی ہوں نہ آفات نئی کی جائے |
جھولیاں چھوٹی پڑیں دینے پہ آئے جب تُو |
تیرے کرنے کی عطا بات نئی کی جائے |
ہم نے دیکھا ہے دعاؤں میں اثر ہوتا ہے |
پھر دعا بدلیں یہ حالات نئی کی جائے |
نفسِ امّارہ ابھی تک نہیں آیا قابو |
اب ارادہ ہے کہ پھر گھات نئی کی جائے |
دل فریب اور گنہ جب سے ہوئے جاتے ہیں |
کیوں نہ حس نات کی بہہ تات نئی کی جائے |
ایک عرصہ ہوا منصور چڑھا سولی پر |
جان کی اب کوئی خیرات نئی کی جائے |
یہ نیا سال بھی اک تحفہ نیا مانگتا ہے |
نام اس کے کوئی سوغات نئی کی جائے |
ہر نیا سال سبق مجھ کو سکھائے طارق |
صبح ہر روز نئی رات نئی کی جائے |
معلومات