| آلام و رنج و غم کی تبھی لب کشائی تھی |
| جب ساحلوں پہ اشکوں نے بستی بسائی تھی |
| دریا چمک رہا تھا ستاروں کے زور پر |
| اک رات کہکشاں نے کہانی سنائی تھی |
| دل میں یقین ہے کہ یہ بے داغ کائنات |
| اک "اتفاق" نے نہیں، رب نے بنائی تھی |
| کس نے اُداسیوں سے یہ شامیں نکالی ہیں |
| کس نے خموشیوں سے یہ وادی سجائی تھی |
| طنٌازیِ جمال تھا وہ طمطراقِ حسن |
| چہرے پہ خاکِ عشق کی جلوہ نمائی تھی |
| مجھ کو گُماں ہُوا تھا، دھواں دیکھ کر وہاں |
| اس طاقچے میں صرف دِیے کی دُہائی تھی |
| میں اُس کے سامنے سے گُزر کے گیا تو جون |
| نظریں نہیں ملیں تھیں، فقط ہمنوائی تھی |
| جونؔ کاظمی |
معلومات