آلام و رنج و غم کی تبھی لب کشائی تھی
جب ساحلوں پہ اشکوں نے بستی بسائی تھی
دریا چمک رہا تھا ستاروں کے زور پر
اک رات کہکشاں نے کہانی سنائی تھی
دل میں یقین ہے کہ یہ بے داغ کائنات
اک "اتفاق" نے نہیں، رب نے بنائی تھی
کس نے اُداسیوں سے یہ شامیں نکالی ہیں
کس نے خموشیوں سے یہ وادی سجائی تھی
طنٌازیِ جمال تھا وہ طمطراقِ حسن
چہرے پہ خاکِ عشق کی جلوہ نمائی تھی
مجھ کو گُماں ہُوا تھا، دھواں دیکھ کر وہاں
اس طاقچے میں صرف دِیے کی دُہائی تھی
میں اُس کے سامنے سے گُزر کے گیا تو جون
نظریں نہیں ملیں تھیں، فقط ہمنوائی تھی
جونؔ کاظمی

0
48