| جِیون بھر کے ارمانوں کا حاصِل ایک مکان |
| قطعہ، پانی، گارا آدھی سِی سِل ایک مکان |
| معمُولی سی مانگ ہے میری پُوری ہو سکتی ہے |
| مانگ رہا ہے مولا میرا بھی دِل ایک مکان |
| میں نے جو اِک خواب بُنا تھا خوابوں میں بستا ہے |
| ہو گا میرا عِشق سوایا، ساحِل، ایک مکان |
| بُوڑھے ہو کر عُہدے سے تو ہٹ جاتے ہیں ہم |
| لے پانا اِس مائے سے ہے مُشکِل ایک مکان |
| روتے رہتے تو ہیں لیکِن چُپ رہتے ہیں |
| میں نے خُود دیکھا ہے دُکھ سے بِسمل ایک مکان |
| تھا یاروں کا حلقہ، پِھر بھی میں تنہا تھا |
| وہ بے فیض سے کُوچے، گلیاں، سنگدِل ایک مکان |
| اب تک ماضی مارا ماری کر لیتا ہے |
| دو چُبھتی سی آنکھیں، بابُو، فائِل، ایک مکان |
| اپنے مالک کی کرتُوتوں سے تنگ آیا |
| سو پہلُو میں آ کر رویا گھائِل ایک مکان |
| ماضی کے ملبے سے نِکلا لاشہ گھبرو کا |
| جو دوشی ہے چُپ ہے حسرتؔ قاتِل ایک مکان |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات