| وفورِ عشق رسوائی میں ڈھل جانے سے کیا ہوگا |
| بھلا یہ بات اب گاؤں میں پھیلانے سے کیا ہوگا |
| یہ اعجاز طلب ہے رائگانی فصل ہجراں تک |
| محبت بھوک ہے تھوڑی تو غم کھانے سے کیا ہوگا |
| بہت ہی مختصر ہے داستان صحرا نوردوں کی |
| محبت ہار جاتی ہے یہ دھرانے سے کیا ہوگا |
| خموشی سے تماشا آہٹوں کا راستہ دیکھے |
| مرے جانے سے کیا ہوگا ترے آنے سے کیا ہوگا |
| فراغ روح پر آباد ہے دوشیزگی تیری |
| دوپٹہ اب کسی پگلی کے سرکانے سے کیا ہوگا |
| اذیت کے شبستاں میں ہمیں نے وحشتیں پالی |
| عیاں ہوں تو دل افسردہ گھبرانے سے کیا ہوگا |
| اتر آئی ہے چاندی دیکھئے بالوں میں اب شؔیدا |
| اترنا رنگ لیلا ہی تھا پچھتانے سے کیا ہوگا |
معلومات