| کیوں وہ ذوقِ نظر نہیں ملتا |
| عشق کا بھی اثر نہیں ملتا |
| ۔ |
| میرے صیاد رکھ نہ خوف کوئی |
| اس پرندے کو پر نہیں ملتا |
| ۔ |
| کس سے سیکھیں رموزِ حقانی |
| عالمِ معتبر نہیں ملتا |
| ۔ |
| رسمِ دنیا ہے چاہو جو بھی یہاں |
| اکثر و بیشتر نہیں ملتا |
| ۔ |
| میری نیندیں اڑی ہیں کچھ ایسی |
| کہ سکوں لمحہ بھر نہیں ملتا |
| ۔ |
| ہم مسافر بھی اک جگہ ٹھہریں |
| پر ٹھکانہ مگر نہیں ملتا |
| ۔ |
| چل دیے ہیں مدثر اس رہ پر |
| کہ جہاں رہگزر نہیں ملتا |
معلومات