کس و ناکس سمجھتا ہے یہ جو قصہ کہانی ہے
ادھر یہ ناتوانی ہے ادھر اس کی جوانی ہے
رخِ کعبہ کو کافر دیکھے تو ایمان لے آئے
یہ ان کا ابروِ قاتل بھی قدرت کی نشانی ہے
دکھائے کیا تماشا دیکھتے ہیں شہرِ پر آشوب
اجل کے رقص پہ بھی ہم نے تو جینے کی ٹھانی ہے
ادھر ہے گیسوئے جاناں ادھر ہے شور دنیا کا
تقاضے بھاڑ میں جائیں کہ ہم نے دل کی مانی ہے
زمانہ آج جس میں گھوم کے یوں فخر کرتا ہے
اسی کوچے کی تو ہم نے بھی آخر خاک چھانی ہے
بھئی ناز و ادا معشوق کا ہے روزِ اول سے
بڑھے ہے شوق میرا اور ان کی لن ترانی ہے
مری ان سے ملاقاتیں تو ایسے روز ہوتی ہیں
کہے کیا حال ہے تو ہم کہیں بس مہربانی ہے

0
24