ہم تو سجدے بھی کیا کرتے تھے اک ایک کے بعد
پر وہ الزام دھرا کرتے تھے اک ایک کے بعد
ہم کو نفرت کی نظر بھی نہ ملی ہے تم سے
لوگ قربت میں رہا کرتے تھے اک ایک کے بعد
مان لیتا ہوں کسی نے نہیں چھیڑے گھاؤ
پر نمک لے کے وہ کیا کرتے تھے اک ایک کے بعد
تم نے کانوں میں تکبّر کی رئی ٹھونسی تھی
ہم تو آواز دیا کرتے تھے اک ایک کے بعد
ہم اسی سوچ میں تھے جا کے کہاں پر بیٹھیں
لوگ تشریف رکھا کرتے تھے اک ایک کے بعد
ہم بھی قیدی تھے کئی اور پرندوں کی طرح
اور صیّاد رہا کرتے تھے اک ایک کے بعد
زخم ہمدرد رفیقوں سے کہیں بڑھ کے رشیدؔ
آ کے سینے سے لگا کرتے تھے اک ایک کے بعد
رشید حسرتؔ
١٨، اکتوبر ٢٠٢٥

0