| دل کی جس کے نام ہے جاگیر کی |
| مثل کوئی بھی نہیں اس ہیر کی |
| جو مقدر کی مٹائے تیرگی |
| ایسی پڑ جائے کرن تنویر کی |
| نقش ہوں دل پر خد و خالِ صنم |
| پھر کوئی حاجت کہاں تصویر کی |
| یارو! جس کو بھی بتائے رازِ دل |
| خوب جگ میں اس نے پھر تشہیر کی |
| جو کبھی دیکھا تھا اک خوابِ وصال |
| جستجو ہے اُس کی اب تعبیر کی |
| کر دے ہر غم سے سدا آزاد جو |
| ہو عنایت کوئی ایسے پیر کی |
| پار کرنا ہے اگر دریائے عشق |
| پھر تو کام آئے گی ناؤ میر کی |
معلومات