| کپڑے بدل رکھے ہیں زلفیں بھی سجا رکھی ہیں |
| تیرے ملنے کی سبھی شرطیں روا رکھی ہیں |
| تو نہیں ہے تو تیری یادوں کی لہروں پر |
| کشتیاں الفت کی ہم نے چلا رکھی ہیں |
| قندیلیں سرِ شام سے روشن ہیں دکھ کی |
| ویراں آنگن کے کونوں سے لگا رکھی ہیں |
| لمحہ بھر کا سکوں میسر نہیں ہے ورنہ |
| سہولیات سبھی ہم نے کما رکھی ہیں |
| اب وہ نہ آئیں گے یہ تو ہم بھی جانتے ہیں |
| شمعیں پھر بھی اندھیری شب میں جلا رکھی ہیں |
| کس کو سنائیں حال دلِ غمگیں ساغر |
| حسرتیں دل کی ساری دل مٰیں چھپا رکھی ہیں |
معلومات