تم نہیں آئے مگر سارا زمانہ آ گیا
بجلیوں کی زد میں میرا آشیانہ آ گیا
جو بُنا کرتے تھے لوگوں کی کہانی رات دن
آج اخباروں میں ان کا بھی فسانہ آ گیا
رنگے ہاتھوں چوریاں کرتے ہوئے پکڑے گئے
ایک دو کا ذکر کیا سارا گھرانہ آ گیا
آپ کی صحبت میں رہ کر چلئے اتنا تو ہؤا
بے سبب ہر آدمی کا دل دکھانا آ گیا
شاخ پر بیٹھا تو کچھ دم چہچہایا اُڑ گیا
ان پرندوں کو فضا کا رزق کھانا آ گیا
پھول بھی بھونروں سے اب تو بے وفا ہونے لگے
دُور سے ہی دیکھ کر چہرہ چھپانا آگیا
ساقی اور شیخِ حرم شیر و شکر ہیں آج کل
قربتوں کے راز کھلنے کا زمانہ آ گیا
گردشِ دوراں سے نالاں ہو مگر سوچو ذرا
شِکمِ مادر میں تھے جبکہ آب و دانہ آ گیا
چوریوں کی عادتیں بچپن سے تھیں شاید جسے
آج اس کو خواجہ صاحب دِل چرانا آ گیا
بی۳

0
145