| صنم کو چیر کے سینہ دِکھا نہیں ہوتا |
| حقِ وفا ہے کہ ہم سے ادا نہیں ہوتا |
| پڑا ہُوا ہمیں چوکھٹ پر اپنی دیکھتا ہے |
| ہمارا یار مگر سیخ پا نہیں ہوتا |
| تمام لوگ برابر ہیں شان و عزّت میں |
| جہان میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہوتا |
| زباں میں شہد تو دل میں خلوص ہوتا ہے |
| بغل میں دوستوں کی یوں چھرا نہیں ہوتا |
| اندھیر خانہ ہے ہر سمت سے مکمل بند |
| درِ امید مرے دل میں وا نہیں ہوتا |
| ہزار حسرتِ دیدار دل میں پلتی ہے |
| مزاجِ یار ملائم ذرا نہیں ہوتا |
| تمھارا تذکرۂ خلد مختلف کیا ہے |
| شراب خانے میں اے شیخ! کیا نہیں ہوتا |
| اے شیخ! کون اٹھاتا بھلا کتب کا بوجھ |
| جو کائنات میں تجھ سا گدھا نہیں ہوتا |
| اگرچہ زور بہت مارتے ہو تنہاؔ جی! |
| تمھارا شعر مگر میرؔ سا نہیں ہوتا |
معلومات