آئینہ سے مارو مجھے پتھر نہیں ہوں میں
گر ٹوٹ بھی جاؤں تو کوئی گھر نہیں ہوں میں
تنکے ہیں مرے چاروں طرف اور ہوا بھی
اُڑ جاؤں کسی پل کوئی پر نہیں ہوں میں
خود کا ہی بنا ہوں دردِ سر کہ یہ باتیں
ویسے تو کسی کا دردِ سر نہیں ہوں میں
کس بات پہ اِتراتے ہو کیا میں نہیں ہوں؟
تو بھی نہیں ہے، جانِ جاں! گر نہیں ہوں میں
یہ بارِ محبت سے جو اشک سے آئے
اے مژگاں مری! آنکھوں میں ڈر نہیں ہوں میں
کامران

0
3