اپنے غم کیا، دوسروں کے دکھ ستاتے ہیں مجھے
سُکھ سے سونا چاہتا ہوں، وہ جگاتے ہیں مجھے
دھند ہے اک درمیاں حائل کئی دنیاوں کے
جن میں پنہاں راستے اکثر بلاتے ہیں مجھے
پاس میرے پھرتے چہرے اجنبی سمجھیں مجھے
دُور وقتوں کے پیارے ملنے آتے ہیں مجھے
صدیوں پہلے گزرے لمحے گھیر لیتے ہیں مجھے
لمحوں پہلے سوچے قصے چھوڑ جاتے ہیں مجھے
کوئی آنکھیں ہر سمے میرے تخیل میں رہیں
خواب چہرے پار کے نغمے سناتے ہیں مجھے
شہر میں بستا ہوں پر باطن پرانا گاوں ہے
خشت و پتھر میں دبے کھلیاں بلاتے ہیں مجھے
میرا مرشد عشق ہے انجام کا خطرہ نہیں
رونا اِس دنیا کا ہے مل کے جھکاتے ہیں مجھے
راشد ڈوگر

116