| تکلیفِ ہجر سے ایسے دم نکلتا ہے |
| کنگھے سے جیسے زلفوں کا خم نکلتا ہے |
| دل چل کہیں جا کے روئیں تنہا بیٹھ کر |
| سنتے ہیں تنہا رونے سے غم نکلتا ہے |
| چپ کی زباں میں دکھ کا قصہ رقم ہوا |
| خاموشیوں سے غم کا مرہم نکلتا ہے |
| دل کی کتاب ہم نے کھولی اگر کبھی |
| ہر صفحہ پہلے سے ہی پرنم نکلتا ہے |
| اک شہرِ درد ہے سینے میں چھپا ہوا |
| کھولیں جو سینہ اشکوں کا بم نکلتا ہے |
| اس طرح عمر گزری ہے بد گمانوں میں |
| اک کو منائیں دوجھا برہم نکلتا ہے |
| ہر اک غزل کو ساغر ملتا نہیں عروج |
| ہر شعر ہو سچا یہ بھی کم نکلتا ہے |
معلومات