| خزاں کی رت کو وہ فصلِ بہار کہتا ہے |
| عجیب شخص ہے دشمن کو یار کہتا ہے |
| اسے حساب کے کلیوں سے کچھ غرض ہی نہیں |
| گنے چنوں کو بھی وہ بےشمار کہتا ہے |
| میں اس کی سادہ دلی کی مثال کیسے دوں |
| وہ اتنا سادہ ہے نفرت کو پیار کہتا ہے |
| فراقِ یار کو کہتا ہے دل کی بیتابی |
| شبِ وصال کو جی کا قرار کہتا ہے |
| عجیب پیار ہے اس کو شکستہ حالوں سے |
| چمن کو دشت ، گلوں کو وہ خار کہتا ہے |
معلومات