سوئے کہ جاگتے ہی رہے ہم تمام رات
پلکوں پہ فصلِ خواب جو تھا نم تمام رات
اٹھتا رہا غبار کہیں پھیلتا دھواں
پہلو میں حادثات کے پیہم تمام رات
یہ شورِ شب گزیدہ کہیں اور کا ہی تھا
شامل سکوت ذات رہا کم تمام رات
کھڑکی سے جھانکتی تھیں دعاؤں کی ساعتیں
آنکھوں کے سامنے تھا پڑا غم تمام رات
کچھ اپنے ساتھ بچھڑے پڑاؤں کی دھول تھی
زخموں کے کچھ چراغ تھے مدھم تمام رات
کاندھوں سے ہجرتوں کا اتر جائے گا سفر
کھل کر منائیں ہجر کا ماتم تمام رات
شؔیدا قیامِ درد عبادت ہے عشق میں
رکھا کریں نہ گھاو پہ مرہم تمام رات

0
6