یہ تیری آنکھ جو صحرا ہے اور جھیل بھی ہے |
یہی ہے منزلِ مقصود، سنگِ میل بھی ہے |
مرا تو حال ہے جو ہے، مگر سنا میں نے |
گریزاں تجھ سے تری چشم کا قتیل بھی ہے |
ہر ایک دشت میں آوارگی پھری میری |
بدستِ حسن مرے عشق کی نکیل بھی ہے |
ہماری تشنگی پہنچی ہے اس مقام پہ آج |
جہاں پہ دخترِ رز ہے تو سلسبیل بھی ہے |
ہیں اس سفر پہ کہ جس کا نہیں کوئی حاصل |
خود اپنے دھن میں مگن شوق کا رحیل بھی ہے |
میں اپنے دین میں کتنا بڑا معمہ ہوں |
ہے روحِ عیسیٰ نفس، تربتِ خلیل بھی ہے |
نظر چراتا ہوں کچھ اور بات ہے ورنہ |
تمہارے غمزے کی پیوست دل میں کیل بھی ہے |
تمہاری آنکھیں نہ جانے کیوں نم نہیں پیارے |
کہ مرگِ ثانی پہ نالاں تو جبرئیل بھی ہے |
معلومات