| فریب جو کبھی پایا، سراب جیسا ہے |
| فتور عقل ہے یا وہ خلاب جیسا ہے |
| یہ لمس جان بھرے سوکھے پیڑ میں یک لخت |
| یوں مسکرانا بھی عرق گلاب جیسا ہے |
| ذکی ہونے کی علامت کا عندیہ ہے ملا |
| "ترا سوال بھی یارا جواب جیسا ہے" |
| ادب سے پیش ہو درپردہ چاہے کیوں نہ رہے |
| حیا ہمیشہ برتنا حجاب جیسا ہے |
| تمام نور جہاں کا سمیٹ کر ہے بنا |
| شگفتہ چہرہ حسیں ماہتاب جیسا ہے |
| بلندی پستی ہو، منزل یہاں ملے نہ ملے |
| حصول چاہ کا میلان خواب جیسا ہے |
| جگانے کے لئے ناصؔر ہے کافی اک تحریک |
| صدا پہ اٹھ کھڑے ہوں، انقلاب جیسا ہے |
معلومات