طوفاں کے تلاطم میں ہے پھر کشتیٔ اسلام
ہے قوم کو پھر آج وہی مرحلہ درپیش
پھر پرچمِ اسلام گرانے کی ہے سازش
ہے ندوۂ کفار میں ابلیس کا پرویش
اسلام کے شیروں کو ڈراتا ہے وہ گیدڑ
ہے حوصلۂ شیر مثالِ بقر و میش
پھر کفر کے شعلوں میں جلا جاتا ہے ایماں
تو نے اے فلک دیکھا نہیں حادثہ دل ریش
اس برقِ تجلّی کو بجھانے میں لگے سب
کہ رہزنِ اسلام میں کیا غیر ہیں کیا خویش
اک پھونک سے شعلائے یزیدی جو کرے سرد
پھر بھیج خدا حیدر کرار سا درویش
جو پرچمِ اسلام تلے سب کو بتائے
جمہوریتِ غرب ہے اے مردِ خدا نیش
پھر شعلۂ جوالہ ہوں احرارِ ضمیری
پھر ثبت کریں دل میں سبھی نقشِ وفا کیش
دنیا کو جو دے فلسفۂ مہر و وفا پھر
پھر توبہ کریں ظلم سے مردانِ جفا کیش
پھر کفر وہ خونخوار چلا آتا ہے دیکھو
رکھ دشنۂ ایمان پہ دھاری بھی بہت بیش
پھر آ گیا دنیا میں وہ لو عہدِ غلامی
مظلوموں پہ چلتا ہے وہ فرعون کا آدیش

0
25