جواں سالی کا گزرا وہ زمانہ یاد آتا ہے
محبت کا وہ رومانی فسانہ یاد آتا ہے
ادب کے جزبے دل میں تب ابھرتے ہی چلے جائیں
رویہ جب بڑوں کا مشفقانہ یاد آتا ہے
خدا کی معرفت کامل جو حاصل کرتے ہیں بندے
مقولہ ان کا ہی بس عارفانہ یاد آتا ہے
نہیں آساں کسی کا جی چرانا چاہ میں لیکن
لگا یا قلب پر گہرا نشانہ یاد آتا ہے
رجھانا سخت جاں کو سیکھ سکتے ہیں تمہیں سے سب
رچایا کھیل کیسا شاطرانہ یاد آتا ہے
انوکھی گفتگو ناصؔر کی تھی عادت لڑکپن سے
کبھی انداز رہتا شاعرانہ یاد آتا ہے

0
34