| نہیں کھانے کا گھر میں اب کوئی سامان لے دے کر |
| اٹھانا پڑ گیا آخر ترا احسان لے دے کر |
| یہاں ہر گام پر مشکل کوئی درپیش آئی ہے |
| فقط اک موت ہی آئی نظر آسان لے دے کر |
| کمایا کچھ نہیں اچھا عمل اس دارِ فانی میں |
| فقط پہلو میں رکھا ہے دلِ ویران لے دے کر |
| میں جس کے واسطے چیخوں گا چلّاؤں گا جلسے میں |
| کرے گا کیا، (فقط اک جھوٹ کا اعلان) لے دے کر |
| بڑا بے باک شاعر ہے گرفتاری ضروری ہے |
| کسی دن آ ہی جائے گا کوئی فرمان لے دے کر |
| مجھے اپنی طرح تو نے بکاؤ مال سمجھا ہے |
| نہیں بکنا کسی صورت بھلی لے جان لے دے کر |
| ترے بچوں کو بہلانا مرے دو وقت کی روٹی |
| ترا گھر چھوڑ جاؤں گا میں بھائی جان لے دے کر |
| کسی کی سرد مہری نے ہمیں بے حال کر ڈالا |
| ہمیں کرنی پڑی ہے زندگی قربان لے دے کر |
| شریفوں نے کبھی لوٹا کبھی زردار قابض تھے |
| وطن کو بیچ کھائے گا ابھی عمران لے دے کر |
| اندھیروں کی حکومت ہے تنزل کا زمانہ ہے |
| ہمیں غاروں پہ لائیں گے سیاست دان لے دے کر |
| کہا بھائی نے حسرتؔ آؤ گھر تقسیم کرتے ہیں |
| مرے حصے میں آیا ہے فقط دالان لے دے کر |
| رشید حسرتؔ |
| ٢١، نومبر٢٠٢٥ |
| email: rasheedhasrat199@gmail.com |
معلومات