کچھ اور گہرے دل پہ لگے وار ہو گئے |
اب تو عزیز ہجر کے آزار ہو گئے |
تھے انتظار میں کہ کوئی چارہ گر ملے |
تیرے فراق میں کئی بیمار ہو گئے |
گھائل ہوئے تو گِر گئے تیرے حضور میں |
تیرِ نظر دلوں کے ہیں جو پار ہو گئے |
ہے سِحرِ حسن یا کہ ہے احسان کا اثر |
سب جان و دل گنوانے کو تیّار ہو گئے |
مانا سفر کٹھن تھا مسافت تھی دُور کی |
اب قُرب تیرا پانے کے آثار ہو گئے |
جب چل دیے تو قافلہ بڑھتا چلا گیا |
جو ایک تھا وہ اب کئی ہزار ہو گئے |
طارق ہوا ہے اس کے جو بھی عشق میں فدا |
اس کے لئے صنم کدے بیکار ہو گئے |
معلومات