| ساحل پڑا ہے وہیں سمندر لے گیا |
| یہ کون اٹھا کے سارا ساگر لے گیا |
| میں دکھتا نہیں خود کو بھی آئینے میں |
| کوئی آنکھوں کے سبھی منظر لے گیا |
| اک شخص نے توڑا ہے فرصت سے مجھے |
| اور میں یہ بات اپنے دل پر لے گیا |
| اس کو ڈر تھا میرے اڑنے کا تبھی |
| وہ نوچ کے میرے سارے پر لے گیا |
| تیرگی کا عالم ہے مرے چاروں طرف |
| جانے کہاں مجھ کو وہ ستمگر لے گیا |
| بربادی ڈھونڈتی تھی اک مشقِ ستم |
| اور میں اس کو ساتھ اپنے گھر لے گیا |
| سب خوابوں کے جزیرے چپ ہیں ساغر |
| جب سے وہ مری ذات کا پیکر لے گیا |
معلومات