گل و شبنم کے داغ جلتے ہیں
قاتلوں کے سراغ جلتے ہیں
یاد سے تیری لو لگائی ہے
عشق میں دل ، دماغ جلتے ہیں
اک تصور ، ترے خیالوں میں
فرصتیں ، پل فراغ جلتے ہیں
گلستاں میں نہیں ہے بلبل بھی
ہجر میں چھت پہ زاغ جلتے ہیں
نین ساقی کے منتظر ہیں یوں
دکھ میں خالی ایاغ جلتے ہیں
آنکھ شاہد جھکی نہیں اٹھتی
سامنے پھول ، باغ جلتے ہیں

2
38
ڈاکٹر صاحب! "کاغ" کا بھی استعمال کر لیتے تو ساتواں شعر بھی ہو کی جاتا۔

جیسے کہ ۔۔۔
اس نے آنا نہیں، یہ تو طے ہے
جب بھی سنتے ہیں کاغ، جلتے ہیں

0
بہت بہت شکریہ ۔ دل سے ممنون ہوں آپ کا ۔ ویسے تو ابھی چراغ بھی باقی ہے