دل درد کے مدرسے سے اب تو اٹھتا نہیں
اور یہ سبق مکتبِ غم کا جو رکتا نہیں
عاشق کی بس ہے صدا ہرسو جو اڑتی چلے
اس پر ستم ہے کہ تو بھی اس کو سنتا نہیں
پہلے تو الفت میں مر جایا ہی کرتے تھے لوگ
پہلے یوں چلتا تھا اب ایسا تو چلتا نہیں
یاں خوابوں کو میرے کس کی ہے نظر یہ لگی
پہلے وہ ملتابھی تھااب تو ملتا نہیں
میری سدا تشنگی کو کیوں بڑھاتا ہے دن
اک تونہ شب کٹتی ہے اور دن کہ ڈھلتا نہیں
الفت میں لٹ جانا ہوتا ہے عبیدِِِ بے کس
ورنہ تو پروانہ سرِ شمع جلتا نہیں

0
76