ہزج مسدس محذوف |
مفاعیلن مفاعیلن فَعُولن |
ہمیں تو تم سے یوں بھی آس کب تھی |
ذرا سی دیر دل بہلا رہے تھے |
وہ تم نے ہاتھ جب چھوڑا ہمارا |
نظارے سب وہیں دُھندلا رہے تھے |
تمھیں تو خیر کچھ نا یاد ہوگا |
ہمارے گُل یونہی مُرجھا رہے تھے |
ذرا سا ٹُوٹ کر بِکھرے تھے کیا ہم |
کہ سب رشتے ہمیں جُھٹلا رہے تھے |
اچانک سے ہوائیں چل پڑی تھیں |
گھنے بادل اُداسی لا رہے تھے |
تری سرسوں تو پھولے جارہی تھی |
ہمارے موتیے کُملا رہے تھے |
ترے اطوار کچھ بدلے ہُوئے تھے |
مگر ہم ہی سمجھ نا پارہے تھے |
اُلجھتی جا رہی تھی زیست گُتّھی |
سمانا جس قدر سلجھا رہے تھے |
معلومات