شیرازۂ ہستی بکھرا ہے تو بکھر جانے دیتے۔ |
سیلاب امڈا ہے بہنے دو اب بپھر جانے دیتے۔ |
کرتا ہے محبت بنتا ہے اب اسکا پجاری کیسے۔ |
پر تولتا ہے یہ ایسا کرتب تو کر جانے دیتے۔ |
پرواز کر جانتا ہے اک جست پر وقت آیا۔ |
پرواز اونچی اڑا ہے اب غوطے بھر جانے دیتے۔ |
اک چاند نکلا زمانے کو اب نکھر جانے دیتے۔ |
آغوش میں کر مجھے شب دل میں اتر جانے دیتے۔ |
اب شام ہونے کو آئی ہے اب تو گھر جانے دیتے۔ |
اب اتنا ٹوٹا ہوں بازوؤں میں بکھر جانے دیتے۔ |
معلومات