| وہ بے خبر ہے تو کیوں باخبر نہِیں ہوتا |
| سفر کہِیں کا بھی ایسے تو سر نہِیں ہوتا |
| بھلا لگے جو تُمہیں تُم وہی کرو بیٹا |
| کِسی بھی بات کا تُم پر اثر نہِیں ہوتا |
| سفر پہ وہ بھی تو آخر نِکل ہی پڑتے ہیں |
| کہ جِن کا دشت و بیاباں گُزر نہِیں ہوتا |
| وقار داؤ پہ ہو آدمی کا جِس گھر میں |
| مکان ہو گا مِرے دوست، گھر نہِیں ہوتا |
| چلا تھا عِشق کے رستے پہ ایک عُمر ہُوئی |
| یہ کیا سفر ہے کِسی طور سر نہِیں ہوتا |
| مُعاملات میں پہلا قدم ہے صبر طلب |
| پِھر اُس کے بعد کوئی خوف، ڈر نہِیں ہوتا |
| یہ میرے شعر کوئی دِل پذیر تھوڑی ہیں |
| جتن کِیے بھی تو حاصل ہُنر نہِیں ہوتا |
| خُدا نے جیسا بنایا کرم ہے اُس کا مِیاں |
| بناتا کیا جو تُو اِنسان اگر نہِیں ہوتا |
| بھٹک رہی ہے مِری رُوح کھنڈرات کے بِیچ |
| رشِیدؔ شہر یُوں وحشت نگر نہِیں ہوتا |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات