| کون اپنا ہے کہ جب یہ ذات بھی اپنی نہیں |
| جیت پایا کون جو اب مات بھی اپنی نہیں |
| ان کے قدموں کے برابر مرتبہ بھی لوٹ ہے |
| ہم مساوی ہوں میاں، اوقات بھی اپنی نہیں |
| ہم کو دھوکے میں رکھا تھا جگنووں کے خواب نے |
| دن تو ہاتھوں سے گیا تھا، رات بھی اپنی نہیں |
| کیسے کیسے سرفروشوں نے لٹا دی زندگی |
| ہم کسی زمرے میں آئیں، بات بھی اپنی نہیں |
| بادلوں کی دیویوں سے ہے مرا بس اختلاف |
| ہے مرا کچّا مکاں، برسات بھی اپنی نہیں |
| زندگی کا باغ اپنا اب اجڑنے والا ہے |
| چار دن کا میلہ یہ سوغات بھی اپنی نہیں |
| آخرش دنیا سے حسرتؔ جا رہا ہوں لوٹ کر |
| بن گیا دولہا مگر بارات بھی اپنی نہیں |
| رشید حسرتؔ |
| یہ غزل ۲۱ اپریل ۲۰۲۵، صبح ۰۹ بج کر ۵۹ منٹ پر مکمل ہوئی۔ |
معلومات