| جو بڑا جِتنا ہے ڈاکُو اُس بڑے منصب پہ ہے |
| آہ و زاری پر ہے دُنیا اور شِکوہ لب پہ ہے |
| حُکم جاری کر دیا ہے دیس کے حاکِم نے یہ |
| ضابطہ جو میں نے رکھا ہے وہ لازِم سب پہ ہے |
| بُھوک سے مجبور ہو کر لوگ خُود سوزی کریں |
| اور حاکِم ہے کہ ہر دِن نِت نئے کرتب پہ ہے |
| تُم کو مخلُوقِ خُدا پر رحم کُچھ آتا نہِیں |
| تُف تُمہاری حُکمرانی پر، تُمہارے ڈھب پہ ہے |
| عدل سے مایُوس بوڑھی ماں نے یہ رو کر کہا |
| اب تو بیٹا فیصلہ رکھا یہ ہم نے ربّ پہ ہے |
| اپنی ناکامی کی کالک دُوسروں کے مُنہ ملی |
| کیا کِیا ہے تُم نے اب جو ساری تُہمت تب پہ ہے |
| جو ترقّی کا کبھی وعدہ کِیا لوگوں کے بِیچ |
| تُم نے منصُوبہ اُٹھا رکھا بھی آخر کب پہ ہے؟ |
| تھا وہ پاکِیزہ مگر ہم نے خروشیں ڈال دِیں |
| بس ترقّی کا ہماری اِنحصار اُس چھب پہ ہے |
| کیسی حسرتؔ آس رکھی، کیا ہُوئے ہیں دِن نصِیب |
| اب وہ مایُوسی کا عالم ہے کہ تکیہ شب پہ ہے |
| رشِید حسرتؔ |
معلومات