مجھ میں گاؤں ہے اور میں گاؤں میں
شہر کس طرح آؤں جاؤں میں
آج پھر ہجر کے مصلے پر
۔شب گزر جائے گی دعاؤں میں
اے مرے دشت زاد شہزادے
آؤ بیٹھیں تھکن کی چھاؤں میں
استعاروں میں بھر دیا ہے تمہیں
شعر ہوتے ہی گنگناؤں میں
درد کو ہم نے لذتیں بخشی
اور کیا کیا تجھے بتاؤں میں
اب جو عریانیوں سے باہر ہوں
آپ اپنا کہاں چھپاؤں میں
آؤ شؔیدا کے آشیانے پر
ایک تازہ غزل سناؤں میں

4