بتائی عمر ساری اس گلی میں
ابھی عمروں کی عادت ہو گئی ہے
*
جھاڑیوں کی اوٹ میں پچھلے پہر کا آفتاب
جیسے مفلس کا بڑھاپا جیسے بیوہ کا شباب
*
عہدِ رفتہ کو اگر بھول ہی جانا ہے درست
پھر تو تاریخ کا تنسیخ سے آغاز کریں
٭
اب طہارت کے لئے لازم نہیں پانی امید
زندگی کی تلخیوں سے روز کرتا ہوں وضو
٭
راستے دھندلا گئے ہیں روشنی والو سنو
وعدہ جلنے کا کیا تھا ٹمٹمانے کا نہیں
٭
آئے تھے کرنے دعائے مغفرت میرے لئے
آپ نے جس جا دعا کی وہ مرا مدفن نہیں
٭
نہ اس نے نوچا نہ اس نے نوچا وجود پھر بھی لہو لہو ہے
کوئی تو ہے وہ حرامزادہ جو تجھ کو اندر سے کھا رہا ہے
٭
شبِ ہجر گرچہ طویل تھی چلیں جیسے تیسے گزر گئی
یہاں دن کا سورج بھی بارہا رہا بادلوں میں چھپا ہؤا
٭
سارے لفظوں سے دعائیں مانگ کر بھی نامراد
اللہ جانے کس لغت کے حرف میں تاثیر ہے
٭
اپنے گھر سے نہ یوں بے حجابا چلو کیا عجب راستے میں ملیں شیخ بھی
اک نظر کی اجازت تو ہے آپکو کب تلک اپنا دامن بچا پاؤ گے
٭
نہ کوئی گھر ہے نہ کھڑکی ہے نہ دروازہ کہیں
باخدا اب نہیں مجھکو کسی برسات کا خوف
٭
تھک کے آبیٹھا پرندہ پھر اسی دیوار پر
جس پہ اک عرصہ گزارا دوستوں کے درمیاں
٭
وہ جنہیں گلشن کے حسن و قبح پر تھا اختیار
باغباں آیا تو رنگ و بُو کو ترسائے گئے
٭
پہلے سارے راستے تھے میرے گھر کے آس پاس
اب کسی بھی راستے میں میرا گھر آتا نہیں
٭
جتنا پتلا قمر ہے راتوں کا
اس سے پتلی تری کمر دیکھی
٭
پانی کی لہروں میں چہروں کے تھرکتے خدّوخال
جس طرح مفلس کی بانہوں میں تڑپتا نونہال
٭
زمیں کا سینہ شق ہونے لگا ہے
بہت بھاری ہے انساں کی سواری
٭
زمیں چھوٹی گناہ حد سے زیادہ
پلینٹ چاہئے قد سے زیادہ
ہمیں خطرہ نہیں ہے دشمنوں سے
ہمیں دشمن ہیں سرحد سے زیادہ
٭
مجھکو مال و زر سے تُو نے تب نوازا اے خدا
جب مرا افلاس بھی مجھ کو مزا دینے لگا
٭
اڑتی ہیں آسماں پہ پرندوں کی ٹولیاں
بھوکوں کی سر زمیں پہ کسے اعتبار ہے
٭
کوئی بتائے کہ مَیں کس طرح فسانے کہوں
بیان ہوتے نہیں زلزلے ترنمّ سے
٭
مرقد میں ساری نعشیں اتاریں بہ اہتمام
میرا جنازہ آیا تو مقتل سے چل دئے
٭
روٹیاں تھیں تین جبکہ کھانے والے چار تھے
بیٹا مَیں بھوکی نہیں ماں نے گوارا کر لیا
٭
اگر وہ آج پھر زلفیں بکھیرے آ گئے باہر
مجھے خدشہ ہے ہر اک متّقی دربان ہو جائے
٭
مجھے ارضِ وطن کی ہر گلی ہر شہر پیارا ہے
یہ میری ماں ہے مَیں امید اسکی کوکھ کا جایا
٭
ماں باپ کی وراثت بچّوں نے مل کے بانٹی
وہ رہ گئے ہاتھ ملتے یہ مرتے چل رہے ہیں
چند لمحوں کی جدائی نے بدل دی زندگی
کوئی آ کر گھُس گیا ان ساعتوں کے درمیاں
*
مجھے جب سے محبّت ہو گئی ہے
بدن سے جان رخصت ہو گئی ہے
*
عید پر کپڑے نئے سُنّت رسول اللہ کی
میرے بچّوں کے سوا کوئی نَفَس عریاں نہ تھا

0
100