| زندگی جو خفا ہے، کیا کہیے |
| یہ بھی اُس کی ادا ہے، کیا کہیے |
| یہ عجب ماجرا ہے، کیا کہیے |
| دردِ دل لا دوا ہے، کیا کہیے |
| پوچھتے ہیں تُو کیا ہے، کیا کہیے؟ |
| اپنا ہے؟ بے وفا ہے؟ کیا کہیے؟ |
| جو کبھی بھی نہ ہو سکے گا پُر |
| ایک ایسا خلا ہے، کیا کہیے |
| داستاں حرف حرف سن لیں وہ |
| یہی ارماں مرا ہے، کیا کہیے |
| آ گئی پیری، اب جوانی میں ہی |
| قد خمیدہ ہوا ہے، کیا کہیے |
| کہہ چُکے داستانِ زندگی ہم |
| کہنے کو اور کیا ہے، کیا کہیے؟ |
| وہ بچھڑ کر زرا نہیں بدلا |
| وہ ہی ناز و ادا ہے، کیا کہیے |
| جلوہِ گُل جو سامنے ہو پھر |
| کور چشمی سزا ہے، کیا کہیے |
| خواب میں جو لیا تھا بوسہِ لب |
| اب بھی اُس کا نشہ ہے، کیا کہیے |
| اِس نے آنا ہے اور جانا ہے |
| زیست بادِ صبا ہے، کیا کہیے |
| جا سَکَت ہے کمر سے پا تک بھی |
| وہ کہ زُلفِ رَسَا ہے، کیا کہیے |
| جس کی خُو ہی ستم گری ٹھہری |
| اُس پہ دل آ گیا ہے، کیا کہیے |
| جس پہ شاہؔد علی ہوا ہے فِدا |
| وہ صنم ہے، خدا ہے، کیا کہیے |
معلومات