| آپ کیوں رنجور ہوتے ہیں میاں |
| ہم ابھی زندہ ہیں زیرِ آسماں |
| عصرِ حاضر گو کہر آلود ہے |
| ہے نہاں اس میں ہزاروں کہکشاں |
| آۓ گی اپنی حکومت بھی کبھی |
| دیکھ لے گا وہ بھی دن ہندوستاں |
| پھر جلے گی شمعِ ملت دہر میں |
| ہوگی پروانوں کی منزل کل جہاں |
| یاد آجائے گا پھر گم کردہ رہ |
| چل پڑے گا سوۓ منزل کارواں |
| کیا زمیں ، کیا پستیٔ تحت الثریٰ |
| کیا ثریا کو بلندی کا گماں |
| آسماں کیا ، اک مکاں محدود ہے |
| شرط ہے شاہیں صفت ہو نوجواں |
| سارا عالم سرنگوں ہو جائے گا |
| آۓ گا پھر دہر میں مہدیؔ نشاں |
| صبر کے زیور سے ہو آراستہ |
| گوکہ ہے ہنگامہ گستر یہ جہاں |
| عزم کی شمشیر کو کر تیز تر |
| سینۂ سوزاں کو کر آتش فشاں |
| بزدلی زیبا نہیں شاہین کو |
| عزم و ہمت کا بنالے آشیاں |
| ہے ابھی بھی دہر میں اک شیر دل |
| اپنے آبا کی شجاعت کا نشاں |
| ایک دل جُو اب بھی ہے گرمِ سفر |
| ملتِ اسلامیہ کا پاسباں |
| بال بھی بیکا نہ کر پائیں گے یہ |
| جب تلک شاہؔی ہے ان کے درمیاں |
معلومات