یوں نہ ہر بار گر مگر کیجیے |
کبھی تو اپنا رخ ادھر کیجیے |
۔ |
کاسۂ دل یہیں بھرا کیجیے |
خوار مجھ کو نہ در بدر کیجیے |
۔ |
مجھ سے عشق آپ کو صنم نہ سہی |
دور خود سے نہ یوں مگر کیجئے |
۔ |
رزمِ عشق و خرد میں اے جاناں |
حاصل اس عشق کو ظفر کیجیے |
۔ |
نہ کٹے سفر زیست کا تنہا |
کسی کو اپنا ہمسفر کیجیے |
۔ |
یوں نہ عادت خراب دل کی کریں |
یوں نہ ترچھی صنم نظر کیجئے |
۔ |
بات بننے کی یاں نہیں عاجز |
یادوں پر ہی گزر بسر کیجیے |
معلومات