یوں نہ ہر بار گر مگر کیجیے
کبھی تو اپنا رخ ادھر کیجیے
۔
کاسۂ دل یہیں بھرا کیجیے
خوار مجھ کو نہ در بدر کیجیے
۔
مجھ سے عشق آپ کو صنم نہ سہی
دور خود سے نہ یوں مگر کیجئے
۔
رزمِ عشق و خرد میں اے جاناں
حاصل اس عشق کو ظفر کیجیے
۔
نہ کٹے سفر زیست کا تنہا
کسی کو اپنا ہمسفر کیجیے
۔
یوں نہ عادت خراب دل کی کریں
یوں نہ ترچھی صنم نظر کیجئے
۔
بات بننے کی یاں نہیں عاجز
یادوں پر ہی گزر بسر کیجیے

0
12