| اس کی نمناک نگاہوں میں تھا اک سیلِ رواں |
| میری آنکھوں سے بھی اشکوں کا سمندر نکلا |
| اس کی اک "ہممم "کے بھی ہوتے ہیں ہزاروں معنی |
| مرا دیوان بھی " ردّی کے برابر " نکلا |
| مجھ کو معلوم نہ تھا کیا ہے ؟ نظر کا دھوکا |
| میں جسے موم سمجھتا تھا وہ پتھر نکلا |
| جب تلک زخم نہیں دیتے ہو ملتا نہیں چین |
| دل بھی اے یار ترے ظلم کا خوگر نکلا |
| کلام : فیصل احمد |
معلومات