| ماں ساری رات اپنا قمر دیکھتی رہی |
| بیٹے کی زندگی کا سفر دیکھتی رہی |
| لیلیٰ کی تھی دعا کہ سلامت رہے سدا |
| اکبر کا ہر وہ بیتا پہر دیکھتی رہی |
| دستِ پسر کو چوم کے آنسو نکل پڑے |
| ماں اپنی ہی دعا کا اثر دیکھتی رہی |
| لے کر بلائیں لعل کی حسرت سے بار بار |
| ماں اپنی محنتوں کا ثمر دیکھتی رہے |
| آوازِ شاہ پر دلِ مادر بھی رک گیا |
| جاتا ہوا وہ نورِ نظر دیکھتی رہی |
| اکبر چلے جو رن کو تو کہرام مچ گیا |
| ماں اپنی محنتوں کا ثمر دیکھتی رہی |
| اکبر گئے ہیں رن میں نہ آئیں گے لوٹ کر |
| پلکیں بچھائے راہ مگر دیکھتی رہی |
| دستے پہ ہاتھ رکھتے ہی تلوار کِھل اٹھی |
| اڑتے ہوئے فضاوں میں سر دیکھتی رہی |
| کڑیل جواں کی لاش پر روتے رہے حسین |
| برچھی کی نوک زخمِ جگر دیکھتی رہی |
| برچھی کے ساتھ ساتھ ہے دم بھی رکا ہوا |
| خوں کی روانی درد جگر دیکھتی رہی |
| صائب بیان کیسے ہو لیلیٰ کے دل کا حال |
| بیٹے کی راہ شام و سحر دیکھتی رہی ۔ |
معلومات