| ہوتا ہے خدا جانے کہ ساحل نہیں ہوتا |
| ہائے وہ کسی بات پہ قائل نہیں ہوتا |
| ہر شخص کے جینے کا انداز جدا ہے |
| ہر شخص بھی تو دل سے جاہل نہیں ہوتا |
| روتے ہیں سدا وائے افسوس ! مرا دل |
| ہم عشق نہ کرتے تو یوں گھائل نہیں ہوتا |
| ہر ہاتھ پہ قسمت کبھی یکساں نہیں ہوتی |
| ہر ہاتھ بھی تو دستِ سائل نہیں ہوتا |
| یہ دل ہے کہ رہتا نہیں اس کے سوا تنہا |
| اک وہ ہے کہ ہم پر کبھی مائل نہیں ہوتا |
| لازم ہے مسافر پہنچے آخری حد تک |
| منزل کا نشاں تو کبھی منزل نہیں ہوتا |
| کرتا نہ جو قابیل کبھی قتل تو ساغر |
| مقتل بھی نہ ہوتا کوئی بسمل نہیں ہوتا |
معلومات