میرے پژمردہ ہیں حالات خدا خیر کرے
دل میں اغیار کے خدشات خدا خیر کرے
کرتے کردار پہ وہ بات خدا خیر کرے
منفی خود جنکی ہیں عادات خدا خیر کرے
جن کی تقدیر میں جلوت کی ملی رعنائی
آج خلوت کے ہیں لمحات خدا خیر کرے
ناخدا ناؤ بھی طوفان میں اب چھوڑ چلا
پیش نظروں کے ہیں خطرات خدا خیر کرے
جن کی ہر بات سے ملتی ہے دغا کی آہٹ
کیسے سمجھیں گے وہ جذبات خدا خیر کرے
اپنے پروانے کا دم لے کے ہی دم لیتے ہیں
مل گئی ان کو مِری ذات خدا خیر کرے
جنکی آنکھوں میں کبھی ایک بھی قطرہ نہ رہا
آج ساون سی ہے برسات خدا خیر کرے
جن کو معلوم تصدق ! نہیں اپنا ہی نسب
دیکھنے آئے وہ اوقات خدا خیر کرے

0
46