تُجھ کو الفت سے عداوت ہی سہی
کچھ مروّت کی اجازت ہی سہی
تیری خاطر جو گزاری میں نے
زندگی اپنی شہادت ہی سہی
غور کرنا نہیں جو سن تو لے
گفتگو میری کرامت ہی سہی
مدرسے میں تو جا کے ملتی ہے
مفت جو آۓ جہالت ہی سہی
غیر کے در پہ جا نہیں سکتے
ہو گئے تیرے فراست ہی سہی
ہم تو دل کب کا تُجھے دے بیٹھے
اب جو کہتے ہو عبادت ہی سہی
وہ جو ملنے مرے گھر آ پہنچے
اس بہانے سے عیادت ہی سہی
دو گھڑی کو یہاں جو آ اے ہیں
دو گھڑی کی یہ رفاقت ہی سہی
مجھ پہ انصاف کا احسان کرے
کُفر پر اس کی سیاست ہی سہی
آنکھ یونہی تو نہیں آتی بھر
بھیگنے کی اسے عادت ہی سہی
طارق اس شہر میں ہجرت کر کے
مل گئی ہے جو سعادت ہی سہی

0
48