ہر بات سے بات نکلتی ہے اثبات کی نفی نہیں ہوتی۔ |
ہم تشنہ لب ہیں بات تو کر کیسے کم تلخی نہیں ہوتی۔ |
جب تیری بات بنے ہے کیوں کر تلخ کلامی دوبارہ ہو۔ |
اک کوشش اور کر دیکھو حاضر ہیں بد نظمی نہیں ہوتی۔ |
اس تیری عنایت پر اب اپنی شفاعت پر اک دعوی ہے۔ |
تم بات تو کر کے دیکھو کیسے ہم آہنگی نہیں ہوتی۔ |
تو سکوت کو توڑو غرور کو چھوڑو ناطہ پیار سے تم جوڑو۔ |
اب رنگ تو سادہ رچا پھر تیری بات بے نقبی نہیں ہوتی ۔ |
پروانہ شمع سے ٹکراتا ہے جان کی بازی کھیلتا ہے۔ |
کہ چمک ملے اور ملے اس کی بازی بے رغبی نہیں ہوتی۔ |
معلوم ہوا تم ایسا کام کرو گے نہیں ہرگز تو نہیں۔ |
بے عقلو سب سمجھی سمجھائی ہے بے سمجھی نہیں ہوتی۔ |
اب صبر سے کام لو بے صبرو کم از کم بہتری آئے گی۔ |
پوشیدہ رکھ کر راز سمجھ سے چل بے قدری نہیں ہوتی۔ |
معلومات