| رہتا ہے دردِ دل یہ بتایا نہیں کبھی |
| بے صبر بھی نہیں ہوں کراہا نہیں کبھی |
| بیٹھے ہو یہ سمجھ کے تم اکتا گیا ہوں میں |
| تم نے مرے مزاج کو سمجھا نہیں کبھی |
| ہاتھوں سے اپنے پیارے کئے دفن ہیں مگر |
| نفرت سے قاتلوں کو بھی دیکھا نہیں کبھی |
| سچ جاننے کا حوصلہ رکھتے نہیں ہو تم |
| مجھ سے سوال اس لئے پوچھا نہیں کبھی |
| تم نے بھی انتہائے ستم ہر قدم پہ کی |
| ہم نے بھی دل میں غم کوئی رکھا نہیں کبھی |
| گر جانتے تو غیر سمجھتے نہ تم ہمیں |
| تم نے ہمارے بارے میں جانا نہیں کبھی |
| تم نے خیال و خواب میں جا کر پناہ لی |
| میں بھی تو اس خیال سے سویا نہیں کبھی |
| عہدِ وفا نبھا کے جو رُخصت ہوا یہاں |
| مشکل حساب اس کا واں ہوتا نہیں کبھی |
| طارق دیارِ غیر میں بیٹھا ہوا ہے خوش |
| وہ اب وطن کی یاد میں روتا نہیں کبھی |
معلومات